شخصیت سازی میں اساتزہ اور والدین کا کردار تحریر: ریاض حسین


شخصیت سازی میں اساتزہ اور والدین کا کردار


تحریر: ریاض حسین




یہ کہنا درست نہیں ہے کہ بچے کی کردار اور شخصیت سازی تعلیمی اداروں میں اساتذہ کی زیرنگرانی ہوتی ہے اگر ایسا ہوتا تو بہت سارے سکول نہ جانے والے بچے زیادہ ایماندار، سچے، ملنسار، عزت دار ۔۔ نہ ہوتے اور نہ ہی اعلی عہدوں پر فايز اعلی معیار کے اداروں سے تعلیم یافتہ لوگ سب سے زیادہ کرپٹ ہوتے۔

بچے کی کردار سازی کا عمل ماں کے پیٹ سے شروع ہوتا ہے- بچہ ماں کے حرکا ت، احساسات، غم ، خوشی ، عمل اور ردعمل کی نقل کرتا ہے اور ماں کی گفتگو کو سن رہا ہوتا ہے اور وہ الفاظ بچے کے طویل مدتی یاداشت میں محفوظ ہوتے ہیں. جب بچہ پیدا ہوتا ہے تو اور چیزوں کو دیکھنا شروع کرتا ہے تو اپنے ذہن میں ذخیرہ شدہ یاداشتوں کو اپنے نظر سے دیکھے ہوے مشاہدات سے جوڑتا ہے اور سیکھنے کا عمل ترقی کرنے لگتا ہے. اگر یاداشتوں اور مشاہدات میں زیادہ تضاد یا فرق موجود ہو تو بچہ پریشان ہو جاتا ہے اور اس کے سیکھنے کا عمل متاثر ہوتا ہے .اس لئے گھر کے تمام افراد اور خصوصآ والدین اور سب سے زیادہ ماں کو چاہیے کہ وو اس دوران اپنے رویے، گفتگو، سرگرمیوں ،کھانے پینے اور تمام روزمرہ کے مماملات پر خصوصی توجہ دے تاکہ بچے کی شخصیت پر مثبت اثرات مرتب ہوں.

بچے کے سکول جانے سے پہلے کے ابتدائی سال بہت اہم ہوتے ہیں جب وہ اپنے ارد گرد ہونے والی واقعات اور سرگرمیوں کے زیر اثر ہوتا ہے اور اس کے کردار کی نشونما ہو رہی ہوتی ہے. بچہ عمر کے اس حصےمیں فوری ردعمل تو نہیں کرتا بلکہ اس کی سب سے پہلی ترجیح خوراک کا حصول ہوتا ہے جوملنے کے بعد وہ اطمینان سے باقی کی سرگرمیوں اور حالات کا جائزہ لیتا ہے اور اپنے ذہن میں محفوظ کر لیتا ہے. اس دوران والدین کے آپس کے تعلقات، بہت زیادہ اہمیت کے حامل ہوتے ہیں . اگر تناؤ اور جھگڑے کی صورتحال ہو تو بچے میں ضد ،انا, غصه اور جارحیت پیدا ہوتی ہے. اس طرح گھر کے دوسرے افراد کے آپس کے تعلقات اور رویے بھی بچے کی کردار سازی پر اثر انداز ہورہے ہوتے ہیں . بڑوں کی عزت کرنا ، چھوٹوں سے شفقت، ایک دوسوں کا خیال رکھنا، دھیمی آواز میں بات کرنا ، مسکراتے رہنا، مدد کرنا، مہمانوں کی آمد پہ خوش ہونا اور ان کا ادب کرنا ، , صاف ستھرا رہنا ، کھیلنا کودنا، کتابیں پڑھنا، کمپیوٹر، ٹی وی ,انٹرنٹ اور دوسرے جدید آلات کا استمال کرنا، وقت پہ کھانا، سونا ، اٹھنا ....یہ تمام عادتیں ہیں جو انسان کی شخصیت کا نمونہ ہوتی ہیں اور یہ سب بچہ سکول جانے سے پہلے ہی دیکھتا اور سیکھتا ہے مگر ان پرعملدرآمد وقت کے ساتھ ساتھ مختلف مراحل میں ہوتا ہے-

جب بچہ سکول پہنچتا ہے اور وہاں اپنی کلاس میں محظ اپنے ہی عمر کے بچوں کو دیکھتا ہے جن کا لباس بھی ایک جیسا، کتابیں بھی ایک جیسی، استاد بھی ایک ، سرگرمیاں بھی ایک جیسی.. تو بچے کو حیرانی ہوتی ہے کہ وہ گھر پہ بڑے چھوٹے ، مختلف لباس، مختلف کھانے، مختلف لوگوں کا آنا جانا.... سب الگ سی دنیا ہے .. اس طرح کی صورتحال میں بچہ الھجن کا شکار ہوتا ہے اور اس کی کردار سازی کا عمل متاثر ہو سکتا ہے.چونکہ بہت سارے بلکہ تمام والدین مطمئن اور خوش ہوتے ہیں کہ بچہ سکول جا چکا ہے اور وہاں اساتزہ بچے کی پڑھائی کے ساتھ ساتھ شخصیت سازی بھی بہتر طریقے سے کرتے ہیں اور اس طرح والدین اپنی ذمہ داری سے خود کو بڑی حد تک آزاد محسوس کرتے ہیں- 

مگرایسا ہر گز نہیں ہے !!

سکول اور استاد کی بنیادی ذمہ داری بچے کو لکھنا اور پڑھنا سکھانا ہوتا ہے اور ضروری مضامین جیسا کہ سائنس ، ریاضی، انگریزی، اور ماشرتی علوم پڑھانا ہے اور ان مضامین کی تیاری میں مدد دکرنا ہے- استاد بچوں کو زبانیں سکھا سکتا ہے,ایک اچھا ڈاکٹر, انجینر، فوجی، سا ینسدان، بینکر اور زمانے کی ضروریات اور ترجیحات کے مطابق پیشہ ورفرد بنا سکتا ہے اور دنیوی طور پر دنیا کا مقابلہ کرنے کے گر سکھا سکتا ہے -اب یہ کہنا کہ استاد ہی بچے کو اچھا مسلمان ، اور انسان بھی بناۓ غلط ہے. استاد بچے کو یہ بتا سکتا ہے کہ اپنے بڑوں کی عزت کریں لیکن بڑوں کو کلاسروم میں لا کے ان کی زبردستی عزت نہیں کروا سکتا- یہ توگھر کے ماحول پر انحصار کرتا ہے- اس طرح استاد یہ بھی بتا سکتا ہے کہ چھوٹوں کا خیال رکھیں لیکن چھوٹوں کو کلاس روم میں نہیں لاسکتا چونکہ کلاس میں ایک ہی عمر کے بچے ہوتے ہیں- استاد بچوں کو بتا سکتا ہے کہ پانچ وقت کی نماز پڑا کریں مگر کلاس میں یہ ممکن نہیں ہے- وہ یہ بھی بتاتا ہے کہ غریبوں کی مدد کریں لیکن کلاس میں تو تمام ایک ہی جیسی مالی حالت رکھنے والے ہوتے ہیں-استاد ضرور بتا سکتا ہے کہ ٹی وی کمپوٹرپہ کیا کیا دیکھنا ہے اور کتنا وقت صرف کرنا ہے مگر استاد گھر جا کے نگرانی نہیں کر سکتا- ایسی صورتحال میں بچے وہی چیزیں دیکھتا ہے جس سی اس کو منع کیا گیا ہوا.. استاد یہ بتاتا ہے کہ وقت پہ سونا ہے اور وقت پے جاگنا ہے مگر اسے گھر کے ماحول اور معمول کیا پتہ- 

ایک استاد کے پاس کلاس میں تیس سے پینتیس منٹس ہوتے ہیں اور تیس سے پینتیس بچے-اس طرح ہر بچے کے لئے ایک منٹ کا وقت ہوتا ہے- اب اس ایک منٹ میں استاد اپنا مطلقہ مضمون پڑھایے یا کردار سازی کرے اور خصوصا آج کے تعلیمی نظام میں جب بچے کے پاس لاتعداد کتابیں اور کاپیوں کا ڈھیر لگا ہوا ہے . سلیبس مکمل کرنا ہے اور امتحان میں بہت اچھے نمبر بھی لینے ہیں-اور اگر بچہ کا رزلٹ ٹھیک نہ ہوا تو اس کی ذمہ داری بھی استاد پر ہی عاید ہوتی ہے حالانکہ دن کے ١٨ گھنٹےبچہ والدین کے پاس ہوتا ہے- 
والدین کو چاہیے کی اپنے بچوں کے ساتھ زیادہ سے زیادہ وقت گزاریں اورخود کو بچوں کے لئے ایک عملی نمونہ بنا کر پیش کریں کیوں کی آج کا بچہ محظ نصیحتوں سے نہیں بلکہ آپ کے کردار سے سیکھتا ہے- اور یہ جو کہا جاتا ہے کہ استاد شاگرد کے لیے ایک عملی نمونہ ہوتا ہے اور وہ استاد کی ہر بات کو مانتا ہے بلکل غلط ہے گر ایسا ہوتا تو آج99 % بچہ استاد بننے کو ناپسند نہ کرتا-اپنے فرائض کو استاد کے کھندے پر ڈال کے اپنے بچوں کو ایک اچھا انسان بنانے کے عمل سے خود کو دور مت کریں. آپ بیشک بچوں کو کم کھلایئں، سستا پہنایئں... لیکن جتنا زیادہ وقت دے سکتے ہیں اتنازیادہ بہتر ہے.



Post a Comment

Previous Post Next Post