خود کشی:طعنے، تدارک و تحقیقات تحریر :ریاض حسین

خود کشی:طعنے، تدارک و تحقیقات


تحریر :ریاض حسین

خود کشی گناہ ہے ، حرام ہے اور جہنمی ہے کے نعرے کام آتے تو کوئی بھی انسان اپنی جان لینے کی کوشش کھبی بھی نہ کرتا . جب انسان مایوسی کی انتہا کو پہنچتا ہے تو یہ سب نعرے بے معنی لگتے ہیں یا ان ان سب نعروں سے خود کو آزاد سمجھتا ہےتب وہ خود کشی کی کوشش کرتا ہے .خود کشی کی وجوہات پر کی جانے والی تحقیقات کے مطابق غربت ، محبت میں ناکامی، امتحان میں فیل ہونا ، گھریلو جھگڑے ، شوھر اور سسرال کے ظلم و ستم جیسے عوامل ہیں جن کی وجہ سے لوگ اپنی جان لینے جیسے انتہائی اقدام کرتے ہیں.

کوئی بھی انسان خود کشی جیسی انتہایی حرکت محض ایک مجبوری، کمزوری، پریشانی یا کمی کی وجہ سے نہیں کرتا . بلکی جب یہ تمام عوامل مل جاتے ہیں تو انسان کو جان لینے پے مجبور کرتے ہیں.

اگر محض غربت ھی خود کشی کی وجہ بن سکتی تو دنیا کی آدھی سے زیادہ آبادی خود کشی کرلیتی مگر ایسا نہیں ہے. غربت کی وجہ سے جو طعنے ملتے ہیں، والدین، اولاد یا بہن بیوی کی ناجائز خواہشات اور امیدیں پوری نہ کر سکنے کے طعنےملتے ہوں تو انسان خود کشی پے مجبور ہوسکتا ہے. اگر آدمی غریب ہو مگر اس کےقریب کے لوگ اس کو حوصلہ دیں، اس سے ناجائز توقعات نہ رکھیں، معاشرہ اس کو حقیر نہ سمجھے تو وہ غریب شخص کھبی بھی اپنی جان نہ لے گا.
اگر بچوں کو گھر پہ والدین اور بہن بھایوں اور دوسرے رشتہ داروں کا پیار ملے تو کوئی بھی اپنے گھر سے باہر پیار نہیں ڈھونڈتا اور اگر ایسا کرے بھی تو اس حد تک نہیں جاتا کہ محبت میں ناکامی کی صورت میں اپنی جان لے لے ....

محض شوہر کی بیوفائی یا ظلم اور تشدد سے تنگ آکر کوئی بھی بیوی خود کشی نہ کرے اگر ساس، سسر، دیور اور دوسرے رشتہ دار اس کا خیال رکھیں اور پیار کریں .. اور اگر سسرال سے نکال بھی دی جایے تو اگر اس کے میکے والے طعنے دینے کے اس عورت کو قبول کریں ، اس کا خیال رکھیں اور اس کی محرومیوں کو دور کریں تو کبھی بھی خودکشی نہ کرے..
محظ امتحان میں فیل ہونے پر اپنی جان لینی ہوتی تو پاکستان اور دوسرے کئی ممالک میں ہر سال فیل ہونے والے تمام بچے خود کشی کر لیتے مگر صرف وہی چند بچے ایسا کرتے ہیں جن کو فیل ہونے پر ان کے والدین، بہن بھائی اور رشتہ دار طعنے دیتے ہیں اور دوست مذاق اڑاتے ہیں. گھر سے نکال دیے جاتے ہے اور دوست بھی ان کو حوصلہ نہیں دیتے تو جان ہی لے لیتے ہیں..
محض نوکری نہ ملنے پر کوئی بھی انسان خود کشی نہیں کرتا مگر جن کو اپنے ہی والدین طعنے دیتے ہیں اور حد سے بڑھ کر امیدیں اور خواہشات رکھیں ، جن کے بہن بھائی لالچ کی حد تک مطالبات کریں اور پورے نہ کرنے کی صورت میں طعنے دیں، جن کے دوست بھی برے وقت میں نظر انداز کریں وہ بیروزگار اپنی جان لے سکتا ہے ....

کوئی بھی نوجوان لڑکی محض منگنی ٹوٹنے پر خود کشی نہیں کرتی مگر ایسا ہونے پر جو طعنےاس کو دیے جاتے ہیں, اس لڑکی کو معاشرہ بری نظر سے دیکھتا ہے اور آئندہ رشتہ نہ ہونے کا خوف ہے جو اس کو اپنی جان لینے پر مجبورکرتے ہے.....
کوئی بھی بزرگ باپ معاشی تنگدستی، یا صحت خرابی کی وجہ سے اپنی جان لینے پر مجبور نہ ہو اگر اس کی اولاد اس کی عزت کرے اس سے محبت کرے اور اس کے ساتھ وقت گزارےکوئی بھی باپ خود کشی کبھی بھی نہ کرے اگر اس کو روزگار نہ ملنے کی صورت میں ریاست اس کے بچوں کی پرورش ،کھانے پینے اور تعلیم کی ذمہ داری لے لے ..

بہت سارے ماہرین خود کشی کی وجوہات جاننے اور ان کا تدارک کرنے کے طریقے ڈھونڈنے کی کوشیش کرتے آ رہے ہیں اور بیشمار تحقیقات کر چکے ہیں مگر ان واقعات کو رو کنے میں ناکام نظر آتے ہیں بلکہ ان کی تعداد میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہے . ان ماہرین میں سے اکثر یا تو اس شعبے کے ماہر نہیں ہوتے یا محظ ایک ہی شعبے کے ماہر ہوتے ہیں جو ان واقعات کو اپنے ہی شعبے اور تجربے کی نظر سے دیکھتے ہیں. کوئی محض معاشی نقطہ نظر سے تحقیقات کرتا ہے تو کوئی ، سماجی ، نفسیاتی یا مذہبی نقطہ نظر سے ان واقعات کی تحقیقات کرتا ہے جو درست تو ہوسکتی ہیں لیکن جامع نہیں ہوتی. چونکہ خود کشی جیسے وقت میں کئی عوامل جیسے معاشی،سماجی، مذہبی، نفسیاتی ذمہ دار ہوتے ہیں اسلیے حکومت یا دوسرے اداروں کو چاہیے کہ وو ایک ایسا ادارہ بنایئں جہاں، والدین ، بچے، ماہر نفسیات، علما، اساتدہ، ماہر معشیت، سماجیات اور دوسرے تمام شبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے ماہرین کو شامل کریں جومل بیٹھ کر اس انتہائی اقدام کی وجوہات کو جاننے اور ان کا تدارک کرنے کے جامع طریقے ڈھونڈے. 

Post a Comment

Previous Post Next Post