تعلیمی ادارے"میمو بان"( اپنے ہیں ) اور قوم !! تحریر : ریاض حسین

تعلیمی ادارے"میمو بان"( اپنے ہیں ) اور قوم !!


تحریر : ریاض حسین

لوگوں کا ایک بہت بڑا اور مستحکم گروہ جن کی مشترکہ نسب، زبان ، علاقہ ، معاشی زندگی، نفسیاتی روپ ، عادتیں، ثقافت سیاسی وجود ، آزاد حکومت ، خود مختار سیاسی ریاست تاریخ یا وغیرہ وغیرہ ہو ، قوم کہلا سکتی ہے 
کسی بھی گروہ کو قوم بننے کے لئے ان تمام خصوصیا ت کاموجود ہونا ضروری نہیں یا ممکن بھی نہیں ہے ، لیکن ان میں سے کچھ عناصر بھی مشترک ہو تو قوم کھلانے کا حق رکھتے ہیں 
اگر گلگت بلتستان کو ایک قوم کے طور پر دیکھا جایے تو مندرجہ بالا خصوصیا ت میں سے کوئی ایک بھی خصوصیت مشترک نہیں پایی جاتی . ہماری نسب مختلف، فرقےمختلف، زبانیں مختلف، عادتیں، ثقافتیں ، مختلف، تاریخ بھی مختلف ہیں. ہم سیاسی طور پر مستحکم نہیں ، آزاد حکومت نہیں ، معاشی خود مختاری بھی نہیں جو ہمیں قوم بنا سکے (سبسڈی کے علاوہ ).لیکن ان سب اختلافات کے باوجود گزشتہ کئی سالوں سے ہم ایک قوم بننے کی کوشش میں ہیں اور ہمارے پاس ایک ہی بہتر راستہ بچا ہے جو ہمیں ایک قوم بنا سکتا ہے اور وہ ہے تعلیم کا راستہ اور خوش قسمتی سے تعلیمی میدان میں ہم ملک کے دوسرے حصوں کی نسبت بہتر صورتحال میں ہیں
تعلیم ہمیں شعوری طور پر اس قابل بنا دیتی ہے کہ ہم تمام اختلافات کے باوجود ایک دوسروے کو قبول کریں ، برداشت کریں اوربہت سارے اختلافات کو بھی نظرانداز کر کے چند مشترکہ خصوصیات کو ڈھونڈیں . تعلیم ہمیں ایک مشترکہ سیاسی سوچ دے سکتی ہے، مشترکہ معاشی سرگرمیوں کو ترقی دے سکتی ہے اور مشترکہ عادات اور نفسیات کو ترقی دے سکتی ہے 
لیکن بدقسمتی سے ریاستی اور حکومتی عدم توجہ کی بدولت , گلگت بلتستان میں تعلیمی سرگرمیاں انفرادی شخصیا ت یا مذہبی ،علاقائی اور لسانی گروہوں کو ترقی تو دے رہی ہیں لیکن قوم بنے کے عمل میں ناکام نظر آتی ہیں جس کی ایک اہم وجہ گلگت بلتستان میں موجود تمام فرقوں نے اپنے اپنے تعلیمی ادارے قائم کیے ہوے ہیں جہاں اکثریت انہی فرقوں کے طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ان کو دوسرے فرقوں کے لوگوں سے ملنے جلنے ، بیٹھنے ، سننے اور مشترکہ عادتیں اور نفسیات اپنانے کا موقع نہیں ملتا. چونکہ انسان اپنی عمر کے ابتدائی حصے میں اپنی شخصیت کی تعمیر کر رہا ہوتا ہے اور معاشرے کے دوسرے افراد کے ساتھ اپنا ربط قائم کرتا ہے جوبڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ کم ہوتا جاتا ہے. مگر ایک ہی علاقے , زبان، ثقافت اور ماحول میں پل کر جو بچہ بڑا ہوتا ہے اس کو دوسروے گروہوں سے ربط قائم کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں . گلگت بلتستان میں موجود ان تمام تعلیمی ادارے جیسا کہ آغا خان ایجوکیشن، المصطفی ، المرتضی، ریڈ فاؤنڈیشن وغیرو وغیرو اپنے اپنے فرقوں کے نمائندہ ادارے ہیں اور ان میں اکثریت انہی فرقوں کے طلبہ اور اساتزہ کی ہوتی ہے.مگر یہ ضروری نہیں ہے کہ ان اداروں کا مقصد اپنے فرقوں کی تبلیغ و ترجیح کرنا ہے اور نہ ہی ایسا کرتے ہیں لیکن چاہتے یا نہ چاہتے ہوے بھی ایک ایسا ماحول ضرور پید ا ہوتا ہے جو ان کو ایک ہی طرز کی عادتیں اور نفسیات سیکھنے کا موقع فرام کرتا ہے. اور ان تمام طلبہ کو دوسرے گروہوں کے طلبہ سے ملنے کے موا قع فرام نہیں کرتا - نتیجتآ، ان کو سکول یا کالج کے بعد بھی اپنی ہی ہم خیال لوگوں کی تلاش رہتی ہے 
ثانوی یااعلی ثانوی لوگوں کا ایک بہت بڑا اور مستحکم گروہ جن کی مشترکہ نسب، زبان ، علاقہ ، معاشی زندگی، نفسیاتی روپ ، عادتیں، تقافت .سیاسی وجود ، آزاد حکومت ، خود مختار سیاسی ریاست تاریخ یا وغیرہ وغیرہ ہو ، قوم کہلا سکتی ہے 
کسی بھی گروہ کو قوم بننے کے لئے ان تمام خصوصیا ت کاموجود ہونا ضروری نہیں یا ممکن بھی نہیں ہے ، لیکن ان میں سے کچھ عناصر بھی مشترک ہو تو قوم کھلانے کا حق رکھتے ہیں
اگر گلگت بلتستان کو ایک قوم کے طور پر دیکھا جایے تو مندرجہ بلا خصوصیا ت میں سے کوئی اک بھی خصوصیت مشترک نہیں پایی جاتی . ہماری نسب مختلف، فرقےمختلف، زبانیں مختلف، عادتیں، ثقافتیں ، مختلف، تاریخ بھی مختلف ہیں. ہم سیاسی طور پر مستحکم نہیں ، آزاد حکومت نہیں ، معاشی خود مختاری بھی نہیں جو ہمیں قوم بنا سکے (سبسڈی کے علاوہ ).لیکن ان سب اختلافات کے باوجود گزشتہ کی سالوں سے ہم ایک قوم بننے کی کوشش میں ہیں اور ہمارے پاس ایک ہی بہتر راستہ بچا ہے جو ہمیں ایک قوم بنا سکتا ہے اور وہ ہے تعلیم کا رستہ اور خوش قسمتی سے تعلیمی میدان میں ہم ملک کے دوسرے حصوں کی نسبت بہتر صورتحال میں ہیں. . تعلیم ہمیں شعوری طور پر اس قابل بنا دیتی ہے کہ ہم تمام اختلافات کے باوجود ایک دوسروے کو قبول کریں ، برداشت کریں اوربہت سرے اختلافات کو بھی نظرانداز کر کے چند مشترکہ خصوصیات کو ڈھونڈیں . تعلیم ہمیں ایک مشترکہ سیاسی سوچ دے سکتی ہے، مشترکہ معاشی سرگرمیوں کو ترقی دے سکتی ہے اور مشترکہ عادات اور نفسیات کو ترقی دے سکتی ہے
لیکن بدقسمتی سے ریاستی اور حکومتی عدم توجہ کی بدولت , گلگت بلتستان میں تعلیمی سرگرمیاں انفرادی شخصیا ت یا مذہبی ،علاقائی اور لسانی گروہوں کو ترقی تو دے رہی ہیں لیکن قوم بنے کے عمل میں ناکام نظر آتی ہیں جس کی ایک اہم وجہ گلگت بلتستان میں موجود تمام فرقوں نے اپنے اپنے تعلیمی ادارے قائم کیے ہوے ہیں جہاں اکثریت انہی فرقوں کے طلبہ تعلیم حاصل کرتے ہیں اور ان کو دوسرے فرقوں کے لوگوں سے ملنے جلنے ، بیٹھنے ، سننے اور مشترکہ عادتیں اور نفسیات اپنانے کرنے کا موقع نہیں ملتا. چونکہ انسان اپنی عمر کے ابتدائی حصے میں اپنی شخصیت کی تعمیر کر رہا ہوتا ہے اور معاشرے کے دوسرے افراد کے ساتھ اپنا ربط قائم کرتا ہے جوبڑھتی عمر کے ساتھ ساتھ کم ہوتا جاتے ہے. مگر ایک ہی علاقے , زبان، ثقافت ،میں پل کر جو بچہ بڑا ہوتا ہے اس کو دوسروے گروہوں سے ربط قائم کرنے میں مشکلات پیش آتی ہیں . گلگت بلتستان میں موجود ان تمام تعلیمی ادارے جیس اکہ آغا خان ایجوکیشن، المصطفی ، المرتضی، ریڈ فاؤنڈیشن وغیرو وغیرو اپنے اپنے فرقوں کے نمائندہ ادارے ہیں اور ان میں اکثریت انہی فرقوں کے طلبہ اور اساتزہ کی ہوتی ہے. یہ ضروری نہیں ہے کہ ان اداروں کا مقصد اپنے فرقوں کی تبلیغ و ترجیح کرنا ہے اور نہ ہی ایسا کرتے ہیں لیکن چاہتے یا نہ چاہتے ہوے بھی ایک ایسا ماحول ضرور پید ا ہوتا ہے جو ان کو ایک ہی طرز کی عادتیں اور نفسیات سیکھنے کا موقع فرام کرتا ہے. اور ان تمام طلبہ کو دوسرے گروہوں کے طلبہ سے ملنے کے موا قع فراہم نہیں کرتا - نتیجتآ، ان کو سکول یا کالج کے بعد بھی اپنے ہی ہم خیال لوگوں کی تلاش رہتی ہے 
ثانوی یااعلی ثانوی تعلیم کے بعد گلگت بلتستان کے بیشتر طلبہ مختلف وجوہات کی بنا پر ملک کے بڑے شہروں کارخ کرتے ہیں جہاں ان کومختلف لسانی، سماجی، معاشی اور دوسرے گروہوں سے واستہ پڑتا ہے . چونکہ ہماری تربیت ایک مخصوص حلقہ میں ہی ہوتی ہے اسلیے ہمیں ان گروہوں کے ساتھ رہنے میں دشواریاں پیش آتی ہیں جس کی وجہ سے ہم : " میمو بیا'(اپنا ہے) کے فارمولے پر چلنے پر مجبور ہوتے ہیں . ہنزہ والے ہنزہ والوں کو ڈھونڈتے ہیں، بلتی، بلتی کے ساتھ رہتا ہوتا ہے ، دیامر کا طالب علم ، دیامر والے کے ساتھ رہنے کو ترجیح دیتا ہے، غذر والا غذر والے کے ساتھ ہی خود کو بہتر محسوس کرتا ہے. اس طرح اسماعیلی، اسمعیلوں کے ساتھ رہتا ہے، شعیہ طالب علم اپنی ہی لوگوں میں رہنا پسند کرتا ہے اور سنی طالب علم کی تلاش سنی طالبعلم ہی ہوتا ہے. اگر غلطی سے یہ سب کہیں مل کر رہتے ہیں تو وہ کوئی مجبوری ہوتی ہے . اور جب یہ سب اپنی تعلیم مکمل کر کے واپس اپنے علاقوں کا رخ کرتے ہیں تو اکثر اپنے اپنے خول میں گھس جاتے ہیں جہاں سے وہ آیے تھے 
اس صورتحال میں ہماری موجودہ نسل جو تعلیمی میدان میں پہلے سے بہت زیادہ بهتر ہے لیکن ان کو ایک معاشرہ بنانے کا موقع نہیں مل رہا . جو ایک انتہائی سنگین صورتحال ہے . 
اس صورت حل سے بچنے کے لئے حکومت کو چاہیے کہ وہ اپنے تعلیمی نظام کو اتنا بہتربنایئں کہ اس طرح کے مختلف گروہوں کو ادارے قائم کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے. (جو مستقبل قریب میں یا کبھی بھی ممکن نظر نہیں آتا). دوسری صورت یہ ہے کی ان تعلیمی اداروں کو پابند کیا جایے اور حکومت ان کی مدد بھی کرے اور تحفظ بھی دےکہ یہ ادارے اپنی سرگرمیاں ان علاقوں میں بھی شروع کریں جہاں ان کے فرقہ کی آبادی کم ہے یا نہیں ہے.مثلا آغا خان ایجوکیشن کو پابند کیا جے اور ان کی مدد کی جایے کہ وہ اپنے ادارے( ڈی جے سکولز، ہائرسکنڈریز ) ، دیامر ،استور اور بلتستان کے دور دراز علاقوں میں بھی کھولیں ، اس طرح ریڈفاونڈیشن بھی اپنی سرگرمیاں، نگر، بلتستان، غذر اور دوسرے علاقوں میں شروح کریں ، المصطفی، المرتضی کو بھی چاہیے کی وہ حکومتی مدد اور تحفظ کے ساتھ اپنے خدمات داریل تانگیر،غزر اوردوسرے تمام علاقوں تک پہنچایے .. اگر ایسا نہ کیا گیا تو ہم آئندہ بھی اپنی نئی اور بہتر تعلیمی نسل سے بھی قوم بننے کی امید نہیں رکھ سکتے

Post a Comment

Previous Post Next Post